کبھی وقت تم کو ملے اگر کہیں دور تم کو میں لے چلوں جہاں دنیا والے کہیں نہ ہوں جہاں بے رخی کہ گلے نہ ہوں جہاں گل وفا کہ ہوں چار سو جہاں زخم اپنے ہرے نہ ہوں تیرا ہاتھ ہو میرے ہاتھ میں کسی خوبصورت سی رات میں ہو گنگناتی ہوا وہاں اور چاندنی بھی ہو ساتھ میں تیرے روبرو میں کروں بیاں کبھی اپنے دل کی بھی آرزو کبھی میں کہوں کبھی تم کہو کبھی ان کہی سی ہو گفتگو کبھی تم سے پھر میں کروں بیاں شب ِ ہجر کی بے چینیاں کبھی تم بھی مجھ کہ بتاؤ پھر کہ میرے بنا ہو رہے کہاں ہو چاند تاروں کی روشنی ہو لمحہ لمحہ میں بے خودی مجھے دنیا والوں سے چھین کر کبھی دل میں اپنے بٹھاؤ تم کبھی ساری رسموں کو توڑ کر میرے اتنے پاس چلے آؤ تم کبھی سارے رستوں کو چھوڑ کر کوئی راستہ تیرے سنگ چلوں کبھی وقت تم کو ملے اگر۔۔۔۔ کہیں دور تم کو میں لے چلوں۔۔۔۔۔